رنگا رنگ

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال

علامہ محمد اقبال ایک عظیم شاعر اور فلسفی تھے۔ آپ کو مفکر پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نو ر محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ علامہ اقبال کو اسلام سے گہری محبت تھی۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم  سیالکوٹ سے حاصل کی ۔ فلسفہ میں ایم ۔اے کرنے کے بعد 1905ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ چلے گئے۔ جہاں آپ نے بار ایٹ لاء اور جرمنی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1908ء میں آپ واپس آئے ۔ آپ نے وکالت  شروع کی لیکن اسےمستقل طور پر اختیا ر نہ کیا۔ آپ کو شاعر مشرق بھی کہا  جاتا ہے۔ آپ نے اپنی شاعری سے برِصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کے لیے بیدار کیا۔ آپ کی مشہور تصا نیف بانگ درا، بال جبریل،  ضرب کلیم ، پیام مشر ق اور اسرار خودی ہیں۔

محمد معاذ ، جماعت ہشتم، گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول صادق آباد، ضلع رحیم یار خان

نوبل انعام

ایک دفعہ طلبہ کا ایک وفد علامہ اقبال سے ملنے آیا۔ ملاقات کے دوران انہوں نے عجیب سا سوال کر دیا کہ آپ کو نوبل پرائز کیوں نہیں ملا؟ طلبہ کا خیال تھا کہ جب دنیا کی بڑی بڑی سرکردہ شخصیات اور ہندوستان میں بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور تک کو نوبل پرائز مل ہے تو علامہ اقبال اس قدر ممتاز اور مشہور شخصیت ہونے کے باوجود اس عالمگیرانہ اعزاز سے کیوں محروم ہیں؟ علامہ اقبال جو طلبہ کے ہر سطح کے سوالات کو خندہ پیشانی سے سن لیا کرتے تھے، قدرے مسکرائے اور فرمایا: اگر مجھے نوبل پرائز مل چکا ہوتا تو پھر مجھ سے یہ سوال کیا جانا چاہیے تھا کہ میں کون سے کارہائے نمایاں انجام دینے پر اس کا مستحق سمجھا گیا ہوں۔ لیکن نہ ملنے پر تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کے اس انکسار اور دلیل آمیز جواب کے بعد طلبہ کے لیے اس موضوع پر بحث کی گنجائش نہ رہی۔

عظیم بخش، جماعت ششم، گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول سکول اوچ بخاری، ضلع بہاول پور

علامہ اقبال کی قلندر مزاجی

ایک دن علامہ اقبالؒ حسب معمول بنیان پہنے اور تہبند باندھے مکان کے برآمدے میں بیٹھے تھے۔ حقہ سامنے تھا اور احباب سے تبادلہ خیال جاری تھا۔ ممتاز حسن بھی اس صحبت میں شریک تھے۔ اتنے میں دو قد آور فوجی جوان جو وضع قطع سے شمالی پنجاب کے کسی ضلع کے رہنے والے معلوم ہوتے تھے، وہاں آئے اور بڑی خاموشی کے ساتھ خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان میں سے ایک نے ممتاز حسن سے پوچھا: ترجمان حقیقت، حضرت علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم۔ اے، پی ایچ۔ ڈی، بیرسٹر ایٹ لا، ممبر پنجاب قانون ساز کونسل کہاں ہیں؟ ممتاز صاحب کو اس سوال پر بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ایک صاحب نے ان کے ہنسنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا: یہ صاحب ترجمان حقیقت، حضرت علامہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال…. کی تلاش میں ہیں، وہ ان کو ابھی تک نہیں مل سکے۔ اس پر ان صاحب نے، جو اقبال کے پرانے دوست، اسلامیہ کالج پشاور کے پروفیسر محمد شفیع تھے، ان نوجوانوں کی طرف دیکھا اور علامہ اقبال کی طرف اشارہ کر کے کہا: یہ کون بیٹھا ہے اس پر ایک قہقہہ پڑا۔ ان قہقہہ لگانے والوں میں خود علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ اس قہقہے کے انداز سے وہ فوجی سمجھ گئے کہ ترجمان حقیقت، علامہ اقبال…. جن کی تلاش میں وہ آئے تھے اس قدر سادگی اور قلندرانہ انداز میں ان کے سامنے بیٹھے ہیں۔

نور محمد ، جماعت پنجم، گورنمنٹ پرائمری سکول سدھووالی، ضلع رحیم یار خان

ہرن کی کھال

ایک دفعہ راجہ نریندر ناتھ نے علامہ اقبالؒ کو چائے پر مدعو کیا۔ راجہ صاحب کے کمرے میں ہرن کی کھالیں بچھی ہوئی تھیں۔ علامہ اقبالؒ ان سے بچ بچ کر گزرے۔ راجہ نریندر ناتھ  نے حیران ہو کر وجہ پوچھی۔ آپ نے جواب میں بتایا کہ میرے استاد محترم نے ایک مرتبہ میری دی ہوئی جائے نماز استعمال نہ کرنے کا سبب بتاتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ہرن کی کھال پر بیٹھنے یا چلنے سے انسان کے دل میں لاشعوری طور پر غرور کا احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی مسلمہ بات ہے جس کا ذکر حدیث شریف میں موجود ہے۔ راجہ نریندر ناتھ اس جواب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کئی منٹ تک وہ خاموش کھڑے، علامہ اقبال کے چہرے کو تکتے رہے۔

ارحم آصف، جماعت چہارم، گورنمنٹ پرائمری سکول سرکی، ضلع مظفر گڑھ

سب سے بڑی تصنیف میں ہوں

علامہ اقبال کو حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی یہ شرط رکھی کہ ان کے استاد مولانا میر حسن کو بھی شمس العلماء کے خطاب سے نوازا جائے۔ حکام نے یہ سوال اٹھایا کہ ان کی کوئی تصنیف نہیں، انہیں کیسے خطاب دیا جا سکتا ہے۔ علامہ نے فرمایا: ان کی (یعنی مولانا کی) سب سے بڑی تصنیف خود میں ہوں جس کو حکومت خود بلا کر سر کا خطاب دے رہی ہے۔ چنانچہ حکومت کو ان کے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دینا پڑا۔

حفظہ بتول، جماعت ہفتم، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جہانیاں، ضلع خانیوال

حق شناسی

علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں جناب سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشان دہی کرتا ہے۔ وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں۔ ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ سیدنا حضرت امام حسین کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔ آپ بال جبریل میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل

محمد عاطف شبیر، جماعت ہشتم، گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول رحیم یار خان
شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •