سید ذیشان حیدر کاظمی (میاں چنوں)
ایک پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک بوڑھا لکڑہارا رہتا تھا۔ لکڑہارا روزانہ قریبی جنگل میں لکڑیاں کا ٹنے جاتا اور پھرواپس گاؤں آ کر انھیں فروخت کر دیتا۔ ایک دن جب لکڑہارا لکڑیاں کاٹ رہا تھا تو اسے پیاس محسوس ہوئی۔ وہ پانی پینے کے لیے ایک تالاب کے پاس گیا ۔ جب وہ پانی پی چکا تو اس نے اپنے اندرنوجوانوں کی سی تروتازگی اور قوت محسوس کی۔ گھر جا کر اس نے خود کو آئینے میں دیکھا تو اسے اپنی شکل و شباہت میں نوجوانی کے دور کی جھلک نظر آئی۔ اس کی بیوی نے اس سے اس حقیقت کا راز پوچھا تو لکڑہارے نے اسے سارا واقعہ بتا دیا۔ اس کی بیوی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، دوڑی دوڑی جنگل کے تالاب پر گئی اور جا کے پانی پینا شروع کردیا۔ خوب صوت اور نوجوان نظر آنے کی خواہش میں وہ اتنا زیادہ پانی پی گئی کہ بجائے جوان ہونے کے بچی بن گئی۔ ادھر لکڑہارا گھر میں بیٹھ کر کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اس کی بیوی ابھی تک جنگل سے واپس کیوں نہیں آئی ۔ زیادہ دیر گزرنے پر بالآخر وہ تالاب کی طرف چل پڑا ۔ وہاں جا کر کیا دیکھتا ہے کہ ایک بچی بیٹھی کھیل رہی ہے ۔ لکڑہارے نے سوچا کہ میں نے تھوڑا سا پانی پیا تو نوجوان ہو گیا اور اس نے لالچ میں آکر زیادہ پانی پی لیا تو وہ بچی بن گئی۔ لکڑہارا اسے اٹھا کر واپس گھر لے آیا۔ سیا نے سچ کہتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔