عبدالرحمٰن چوہان (بہاول نگر)
میں نے جب آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو مجھے جماعت نہم میں داخلے کے لئے کسی اچھے ہائی سکول کا انتخاب کرنا تھا۔ ایک عجیب سی اضطرابی اور ہیجانی کیفیت میں اپنے گرد ونواح کے سکولوں کا جائزہ لیا اور معلومات اکٹھی کیں۔ میرے بہت سے واقف کاروں نے صرف ایک ہی سکول کا نام لیا اور وہ ہے گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول وکلا ء کالونی بہاول نگر۔
جس دن داخلے کے لئے سکول میں آیا تو گیٹ کیپر نے انتہائی مہذب انداز میں مجھے روکا اور میری آمد کا مقصد پوچھا ۔ میرے بتانے پر ایک رجسٹر میں میرے نام کا اندراج کیا اور آنے کی وجہ لکھی۔ اس کے بعد مجھے شعبہ داخلہ میں بھیج دیا ۔
میں سہما سہما شعبہ داخلہ کے دفتر میں داخل ہوا تو سامنے ایک مشفق استاد صاحب تشریف فرما تھے جن کا نام بعد میں معلوم ہوا کہ وہ حافظ رفیق الرحمان صاحب تھے۔ انھوں نے مجھے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اخلاق کے ساتھ پیش آئے ۔ میری آمد کی وجہ پوچھی۔ میرے بتانے پر داخلہ فارم پر کروایا اور ضروری کاغذات لے کر مجھے سکول میں داخلے کی خوشخبری دی۔ مجھے ایک استاد محترم کمرہ ء ِ جماعت تک لے گئے اور دوسرے طلبا کے ساتھ بٹھا دیا۔
مجھے ہر طرف اجنبیت کا ماحول محسوس ہو رہا تھا ۔ نئے لڑکے، نئے اساتذہ اور نیا ماحول میرے لئے عجیب سی کیفیات کا باعث بن رہا تھا۔ اسی اثناء میں محمد آصف عارف صاحب تشریف لائے اور نئے آنے والے بچوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے باری باری سب طلبا سے تعارف کروانے کا کہا۔ سابقہ طلبا کو ہدایت کی کہ وہ نئے آنے والے طلبا سے حسن سلوک کا مظاہرہ کریں۔ بعدازاں سکول کے نظم و ضبط کے بارے میں آگاہ کیا اور عمل کرنے کا حکم دیا۔ استاد صاحب کا اخلاق اور رویہ دیکھ کر مجھے حوصلہ ہوا اور میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ سکول کے قواعد و ضوابط کی پابندی کروں گا۔ دل لگا کر پڑھائی کروں گا۔ اپنے والدین اور سکول کا نام روشن کروں گا۔