ریحان اکمل (ملتان)
رات کے گیارہ بجے تمام لوگ گہری نیند سو رہے تھے اور میں اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا ۔ کل میرا پرچہ تھا لیکن کچھ سوچوں کی وجہ سے میرا پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ آج سکول میں میرے کلاس فیلو اور محلے دار اسلم نے شاہد کا قلم چپکے سے چوری کر کے میرے بستے میں ڈال دیا تھا۔ کچھ دیر بعد شاہد نے استاد صاحب سے اپنے قلم کی گم شدگی کی شکایت کی۔ استاد صاحب نے جب تمام طلبہ کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کس نے شاہدکا قلم دیکھا ہے تو اسلم نے مجھ پر الزام لگا دیا ۔ استاد صاحب نے میرے بستے کی تلاشی لی تو شاہد کا قلم برآمد ہوا ۔ استاد صاحب نے مجھے ڈانٹا اور سزا کے طور پر مجھے کلاس سے باہر کھڑا کر دیا۔
میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے کھڑکی سے روشنی نظر آئی۔ میں نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو کسی گھر میں آگ لگی ہوئی تھی۔ میں فوراً گھر سے باہر نکلا اور آگ کی لپیٹ میں آنے والے گھر کے سامنے پہنچ گیا ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اسلم کا گھر تھا۔ اسلم کے والدین تو کسی طرح صحیح سلامت باہر نکل آئے تھے لیکن اسلم اندر ہی رہ گیا تھا اورچیخ چیخ کر مدد کے لیے پکار رہا تھا ۔ اس کے والدین بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔
پہلے خیال آیا کہ میں اس کی مدد نہ کروں ، کیونکہ اس کی وجہ سے گزشتہ روز مجھے کلاس میں شرمندگی ک سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن پھر مجھے اس پر ترس آگیا اور میں نے اس کی مدد کرنے کی ٹھان لی ۔ میں تیزی سے واپس اپنے گھر آیا اور سیڑھی لے کراس کے گھر کے پاس رکھ دی ۔ سیڑھی پر چڑھ کرمیں اس کے کمرے کی کھڑکی کے پاس پہنچ گیا اور کھڑکی کھول دی ۔ اسلم مجھے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے اس کی سیڑھی کے ذریعے نیچے آنے میں مدد کی ۔ وہ اپنے والدین کے پاس پہنچ کر بہت خوش ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔
اس نے مجھ سے اپنے رویے اور گزشتہ روز کے واقعہ کی معافی مانگی۔ وہ بہت شرمندہ تھا ۔ میں نے اسے معاف کر دیا اور ہم اچھے دوست بن گئے۔ اس کے بعد ہم مل کر مزے مزے کے کھیل کھیلنے اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے۔ مجھے نیکی کر کے بہت مسرت ہوئی اور اللہ نے مجھے میری نیکی کا اجر دیا کہ میرا دشمن میرا بہترین دوست بن گیا۔