انشراح رانا (کہروڑ پکا)
میرے قریب ہی سسکیوں کی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش میں ہے ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو سوائے ایک کالے بوٹ کے کچھ نظر نہ آیا ۔ میں نے آہستگی سے اس کالے بوٹ کے پاس جا کر دیکھا تو وہ ہل رہا تھا اور سسکیوں کی آواز بھی اسی میں سے آ رہی تھی۔ میں نے کہا : ہیلو! کون ہیں آپ؟ کیوں رو رہے ہیں؟ تو جوتے میں سے آواز آئی: میں ایک بوٹ ہوں اور اپنی قسمت پر رو رہا ہوں۔ مگر کیوں رو رہے ہو؟ بوٹ نے جواب دیا : میں ایک قیمتی جانور کی کھال سے بنایا گیا ہوں۔ میں بہت خوبصورت اور عمدہ تھا ۔ مجھے فیکٹری سے ایک مہنگی دکان پر بکنے کے لیے سجا دیا گیا۔ وہاں کئی گاہک آئے۔ ان میں سے ایک امیر شخص نے مجھے خرید لیا ۔ میں بہت خوش تھا کہ مجھے امیر مالک مل گیا ہے۔ میرے مالک نے مجھے الماری میں دوسرے جوتوں کے ساتھ رکھ دیا ۔ اب وہ روزانہ مجھے دفتر پہن کر جاتا ۔ میں روز گاڑی میں ،کبھی دفتر، کبھی پارٹی اور کبھی میٹنگ کے سلسلے میں اپنے مالک کے ساتھ مختلف شہروں کی سیر کرتا رہا ۔ پھر ایک دن میرے مالک نے مجھے اٹھا کر اپنے نوکر کے حوالے کر دیا ۔ اس نوکر نے مجھے دن رات پہنا۔ کبھی گندی گلیوں میں لے جاتا ۔ کبھی پانی میں ڈال دیتا اور کبھی سارا سارا دن دھوپ میں رکھ دیتا ۔ آہستہ آہستہ میں پھٹنے لگا۔ میری چمک دمک ماند پڑ گئی اور میں ایک پرانے جوتے کی شکل میں آ گیا۔ پھر ایک دن اس نوکر نے مجھے اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ وہاں کی گندگی اور بدبو سے میرا دماغ پھٹنے لگا ۔ مجھے اپنے گزرے ہوئے سنہرے دن یاد آتے ہیں جب میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اب میں ہمیشہ کے لیے ادھر ہی رہوں گا اور ساری عمر کے لیے یونہی روتا سسکتا رہوں گا۔ یہ کہہ کر اس بوٹ نے دوبارہ رونا شروع کر دیا جبکہ میں نے اس کی آپ بیتی سن کر اپنے گھر کی راہ لی۔